0

میں کھوتا ہوں


میں کھوتا ہوں

کنجر نامہ میں  مویش  کا تعارف پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔  مویشی کی کھوتیانہ شخصیت سے اچھا تعارف حاصل ہوگیا۔ مگر ایک راز ابھی تک نہیں کھل سکا کہ مویش کا نام کھوتا کیونکر اور کب پڑا۔  عوام الناس کا خیال ہے کہ  اسکا نام  چند سال قبل  سائیکاٹرک ہاسپٹل میں  چرس نا ملنے پر احتجاجاً ہر کسی کو دولّتیاں مارنے پر دیا گیا ہے جو کہ راقم کی معلومات کے مطابق غلط ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھوتا نام  فاروق درویش نے خود ہی اپنے آپ کو دیا ہے۔ آپ چونک گئے نا ؟
اس   نام کے پیچھے ایک پوری کہانی ہے اور یہ کہانی بڑی پرانی ہے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب آتش جوان تھی ۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ میں سے پڑھے لکھے لوگ  فوراً بول  پڑیں گے کہ آتش جوان  تھا   ۔ جناب عالی! بات یہ ہے کہ آپ آتش کو جانتے نہیں ہیں۔  یہ الہڑ دوشیزہ مویش کی پڑوسن تھی  جس  پر مویش کی گندی نظر تھی ۔ اور آپ تو جانتے ہیں کہ مویش ایک انتہائی  پَھٹّو ُ قسم کا شخص ہے ۔ اس قسم کے معاملات میں فائز المرام  ہونے کے لیے جس بدمعاشی کی ضرورت  ہوتی ہے وہ اس سے آج تک محروم ہے۔ ایک دن  کسی باگڑو دوست نے اسے دیسی ٹُھرّے پر چرس پلادی  جس پر ٹُن مویش آتش کے گھر میں کود گیا۔ اگر کُود ہی گیا ہوتا تو کوئی بات نا ہوتی وہاں جاکر  اس نے امریش پوری کی طرح قہقہے لگانے شروع کردیے  ۔ بدقسمت مویش کو معلوم نا تھا کہ یہ قہقے اس الہڑ مٹیار کی چھیڑ ہیں۔ مشتعل ہوکر آتش نے بروس لی اسٹائل کی چیخ ماری اور ایک فلائنگ کک مویش کے تھوبڑے پر دی اور مویش     ٹٹّی (المعروف   ٹوائلٹ ) کی  زمانہ قدیم موری  ( جس میں  گھر کا ایک مسٹنڈا  اور نکھٹو  بچہ تازہ تازہ فارغ ہواتھا ) میں منہ کے بل جا کر اس طرح گرا کہ  بھنگی کی ضرورت نہیں رہی۔ (یار لوگ جانتے ہیں کہ مویش کے چہرے پر آئی پھٹکار اسی فلائنگ کک کا نتیجہ ہے )۔ بات یہی ختم نہیں ہوئی ، آتش کے ہاتھ ایک ایسا  وائپر ہاتھ  لگ گیا کہ جس  کا ڈنڈا   زمانہ قدیم  کی کسی  ناقابل ریخت  لکڑی کا بنا ہوا تھا   اور صورتحال یوں تھی کہ مویش کا منہ موری میں  آدھا دھڑ ٹٹّی میں اور آدھا  دھڑ باہر  جسکی خاص  بات مویش کی تشریف کا  اس طرح اٹھا ہوا ہونا جس   کی مثال  صرف  انگریزی میں شکاری لوگ  سٹنگ  ڈک سے دیتے ہیں۔  اور ۔۔۔۔۔اس  ظالم  حسینہ نے وہ کچھ کر دکھایا  کہ جس  کے بارے میں بڑے بڑے لفنگے اور بدقماش  لوگ دھمکیاں ہی دیتے رہ جاتے ہیں ۔ جوکچھ ہوا  وہ  بیان نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ اس صورتحال کے  گھناؤنے  پن اور اسکی سنگینی کا انداز ہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ بالی ووڈ نے اس پر گانا بنا دیا ۔ آپ نے تو سنا ہی ہوگا  " ڈنڈا ہے پر گندا ہے یہ "  جسے بعد میں اداکاروں اور فلمی یونٹ  کے احتجاج پر " گندا ہے پر دھندہ ہے یہ " سے تبدیل کردیا گیا۔  بہرحال  اس ڈنڈے کی وجہ سے مویش کی چیخیں دو کوس دور تک سنی گئی تھیں۔  قصّہ مختصر  محلے والے جلد ہی آگئے اور ڈنڈے کو اس گندی جگہ سے نکالا گیا۔ مگر اس  حادثہ کی وجہ سے مویش کو ایک ہفتہ اسپتال  کے بیڈ پر منہ کے بل لیٹ کر گذارنے پڑے ۔ پتا نہیں وہ حسینہ جفا کیش  کا فحش  ستم تھا یہ تشریف  کے مرکز میں ہونے والی تکلیف  ،  مویش  جس طرح بھینچوں بھینچوں  رویا  اسے دیکھ کر ہسپتال میں تکلیف  اور  امراض سے بے حال  مریض بھی پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنسی سے بے حال ہوتے رہے۔  آج کئی دہائیوں کے بعد بھی مویش کی چال اس سانحہ  ماڈل ٹاؤن کا پتا دیتی ہے۔

 اپنے ناپاک عزائم میں یادگار ناکامی  کے بعد مویش کا دل ہر چیز سوائے دیسی ٹھّرے اور چرس کے ہر چیز سے اچاٹ ہوگیا اور بال بڑھا کر ہِپّی بن کر دنیا کی سیر کو نکل گیا۔  ہِپّی بننا مویش کو بڑا  راس  آیا ۔ دنیا جہاں کی مفت سیریں، بے حد و حساب اور مفت چرس ، گانجا اور افیم  اور  مفت کا "ٹھنڈا گوشت "۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا  مگر یہ ٹھنڈا گوشت  اب مویش کو زہر لگنے لگ گیا تھا اس ٹھنڈے  گوشت کی وجہ سے مویش کو وہ وہ بیماریاں لگیں کہ   پاکستان کے سڑک چھاپ حکیموں  (جن کا دعویٰ ہے کہ سوائے موت کے انکے پاس ہر بیماری کا علاج ہے ۔ کینسر  کو تو وہ ایک خوراک میں سیدھا کرلیتے ہیں)  تک نے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لی تھی۔ حکیموں اور سنیاسی باواؤں نے اپنے اپنے اشتہاری بورڈوں پر  "  فاروق  بٹ سے معذرت" کے الفاظ تحریر کرالیے تھے۔   خورشیدان ِ طب و حکمت  کی متفقہ رائے تھی  کہ  مویش کے نظام میں ایسی خرابی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ   فطرت کے مقاصد کی تکمیل  کی بجائے نکاسی  آب کے لائق ہی رہ گیا ہے ۔   لاہور  کے  ایک  عالمی  شہرت یافتہ  سنیاسی جٹادھاری باوا کو تو اس نے علاج کے لیے اتنا تنگ کیا  سنیاسی باوا   کو  دو درجن   دیسی  قسم  کی  کانوں سے دھواں نکال دینی والی گالیاں اور ایک عدد زوردار دار لات  مویش کی تشریف  پر رسید کرنی پڑی۔  جسکا بدلہ  مویش نے انکا حشیش بھرا صندوق چُرا کر لیا۔  جس کا غصہ آج بھی سنیاسی جٹا دھاری باوا کو ہے ۔  باوا سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ باوا نے فاروق مویش سے انتقام لینے کا ایک انوکھا پروگرام تیار کیا ہوا ہے۔  اس مقصد کے لیے  باوا نے نہایت مہنگی اور ولایتی اسکاچ خرید کر رکھی ہے جسے وہ مویش  کے منہ پر  بہانا چاہتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ باوا اتنی مہنگی شراب کی بوتل  کی کیا ضرورت تھی تو انہوں نے تڑخ کر فرمایا کہ  "مجھے کیا کھوتا سمجھا ہوا ہے۔۔۔۔۔ میں یہ شراب پہلے اپنے گُردوں کی چھلنی سے گذاروں گا اور اسکے بعد مویش کے منہ پر بہاؤں گا "
لیکن مویش بھی اپنی دھن کا پکّا تھا اس نے  بھارت یاترا کی اور ایک تانترک کو ڈھونڈ لیا جس نے علاج سے پہلے اسے شُدّھی کیا اور چالیس روز لگاتار گئو ماتا  کاپیشاب پلایا۔ تب جاکر مویش  کی روٹھی خوشیاں واپس لوٹ آئیں۔ مویش نے ساتھ ہی ساتھ "ٹھنڈے گوشت" سے ہمیشہ کے لیے توبہ کرلی ۔ اب مویش ٹھنڈے گوشت کی بجائے ہاٹ کیک کا  طلبگار ہوگیا اور دنیا اسی چکر میں پھرتا رہا ۔ اس چکر میں اسے ہمیشہ گالیاں  اور جوتے پڑے ۔کئی بار جیل  بھی گیا  (جسکا ثبوت یہ تصویر ہے )   


کئی بار اسکی جم کے دھلائی ہوئی مگر یہ باز نا آیا۔ دنیا بھر میں معاملات طلب و رسد پر چلتے ہیں جبکہ مویش کے یہاں یہ اصول کچھ مختلف تھا ۔ جوکہ سراسر طلب و  سفر  بن چکا تھا۔ قریب تھا کہ مویش کو انگور کی کھٹّاس کا احساس ہوتا اسکا گذر مشرقی یورپ  کے کسی گاؤں سے ہوا ۔ سردیوں کی رات اپنے جوبن پر تھی   کوئی  مناسب جگہ نا ملنے پر  ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ دروازہ ایک عمر رسیدہ شخص نے کھولا اور مویش کا مدعا دریافت کیا۔ مویش نے رات گذارنے کے لیے مناسب جگہ کی درخواست کی۔ سردی سے کانپتے مویش کو دیکھ کر اس عمر رسیدہ شخص کو اس پر رحم آگیا  اور اسے اندر آنے کی دعوت دی۔ طعام کے بعد مویش سے بولا " ویل ینگ مین! ہمارا گھر چھوٹا سا ہے اور دو ہی بیڈ روم ہیں ۔ ایک میں میں اور میری بیوی رہتے ہیں اور دوسرا کمرہ بے بی کے لیے ہے۔ آپ ایسا کرو کہ بے بی کے کمرے میں جاکر سوجاؤ۔"  مویش نے سوچا کہ بے بی رات میں اٹھ گئی تو اسکی ریں ریں مجھے ہی جھیلنی پڑ جائے گی۔ فوراً کمال انکساری سے بولا " نہیں انکل ! آپ میری فکر نا کریں میں تو ہپی ہوں کہیں بھی سو سکتا ہوں۔ آج کی رات میں ڈرائنگ روم کے صوفہ پر سو کر گذار لوں گا"  بوڑھا آدمی یہ بات سن کر شب بخیر کہتا ہوا   اپنے کمرے میں چلا گیا ۔  صبح اسکو اسی بوڑھے نہیں اٹھایا اور ناشتہ کی دعوت دی جسے اس نے بڑی خوشدلی سے قبول  کرلی۔ ناشتہ میز پر لگ گیا تو  وہ  ناشتہ کی میز کی طرف چلا آیا  لیکن بیٹھنے سے پہلے اسے ایک زوردار جھٹکا لگا ۔ اسکے سامنے والی کرسی پر ایک حسینہ نازنین و خوش ادا پہلے سے براجمان توس لگے جام کو نہایت نفاست سے کُتر رہی تھی۔   مویش کی رال اسی وقت بہہ نکلی باچھیں کھل اٹھیں آنکھوں میں شیطانی چراغ جل اٹھے۔ اسی عالم میں اس نے بوڑھے سے بڑے رسان سے دریافت کیا کہ " انکل  آپ نے اس خوبصورت لڑکی کا تعارف تو کرایا ہی نہیں"  بوڑھا بولا " ویل  ینگ مین! یہ ہماری بےبی ہے"    پھر اس بوڑھے نے پوچھا " ینگ مین ! تم نے اپنا نام تو بتایا ہی نہیں"  لیکن  مویش تو گمُ صمُ بیٹھا   اپنی تقدیر کو کوس رہا تھا ۔چہرے پر تاریک سائے اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ اسکے ساڑھے چھ بج چکے ہیں۔  بوڑھے  کے نام دوبارہ دریافت کرنے پر  اسکے منہ سے بے ساختہ نکلا  " میں کھوتا ہوں" ۔

6

تعارف عظیم اردو بلاغڑ جناب قارون مویش صاحب۔۔۔


کنجر نامہ کے سلسلہ شناسائی کے آج کے ہمارے مہمان ہیں عظیم اردو بلاغڑ جناب قارون مویش صاحب۔۔۔ اردو بلاگنگ میں ان کا مرتبہ بولی ووڈ کے جانی لیور اور ٹالی ووڈ کے مموٹی سےبھی اوپر جانا اور سمجھا جاتا ہے۔۔۔ آئیے گالیاں کھانا شروع کرتے ہیں۔۔۔

خوش آمدید۔۔۔

کیسے مزاج ہیں۔۔۔

ٹھیک۔۔۔ تو سنا۔۔۔!!! برادررررر۔۔۔۔

اپنے بارے میں کچھ بتائیے۔۔۔

نام تو میرا قارون مویش ہے۔۔۔ لیکن تیرے لیے بہتر یہی ہے کہ تو "حضرت مولانا شانِ پاک و ہند جناب قارون مویش مدظلہ علیہ" کہہ کر پکارا۔۔۔ ورنہ۔۔۔

آپ کی جائے پیدائش کہاں ہے۔۔۔؟ اور موجودہ رہائش کہاں ہے۔۔۔؟

ابے میں پیدا نہیں ہوا تھا۔۔۔ اُگایا گیا تھا۔۔۔ بڑے لوگ پیدا نہیں ہوتے۔۔۔ تخلیق کیے جاتے ہیں۔۔۔ اسی طرح میرے جیسے عظیم انسان کو "استاد" نے اپنے کھیتوں میں اُگایا۔۔۔

موجودہ رہائش بھی اِدھر ہی ہے بے۔۔۔ ایڈریس بتا دیا نا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔۔۔ چھوڑ اس بات کو۔۔۔ پتلی گلی پکڑ اور نکل لے۔۔۔

اپنی تعلیم، پیشہ اور خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔۔۔

ابے سن۔۔۔ اب تو پرسنل نہیں ہو رہا۔۔۔!!! تعلیم تو وہ۔۔۔ جو کبھی کی ہی نہیں۔۔۔ تعلیم ہوتی تو ایسا زبردست بلاغڑ کیسے بنتا۔۔۔ چریے۔۔۔

 پیشہ بھی اپنا کمال ہی ہے۔۔۔ بھاڑے پر مل جاتا ہوں۔۔۔ پہلے بھٹو کے خلاف نعرے لگانے کے پیسے مل جاتے تھے۔۔۔ پھر ضیاء صاب لے گئے افغانستان۔۔۔ ادھر رشینوں سے جوتے کھائے۔۔۔ ادھر سے واپس آیا۔۔۔ تو مشرف نے پکڑ ایک بنک میں لگا دیا۔۔۔ وہاں پیسے حلال کرتا رہا لیکن لگائی بجھائی کی عادت ایسے تھوڑی جاتی ہے۔۔۔ مشرف نے پکڑ کے اندر کر دیا۔۔۔ وہاں بھی جوتے کھاتا رہا۔۔۔ اور اب یہ حال ہے کہ تشریف "رکھنا" ممکن نہیں رہا۔۔۔ 

اور خاندان تک مت جائیو۔۔۔ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی۔۔۔

اردو بلاگنگ کی طرف کیسے آنا ہوا۔۔۔؟

ابے۔۔۔ ہم اردو بلاگنگ کی طرف نہیں آئے۔۔۔ بلاگنگ ہماری طرف گڑگڑاتی ہوئی آئی۔۔۔ کہ ہم کو کر لو۔۔۔ پلیز ہم کو کر لو۔۔۔ اب ہم احسان کرنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔۔۔ اس لیے ہم نے اردو بلاگنگ پر ایک احسانِ عظیم کیا اپنے نام کی طرح۔۔۔ اور پھر اس کو جو کیا۔۔۔ تو ایسا کیا کہ پوچھو مت۔۔۔

 

بلاگنگ شروع کرتے ہوئے کیا سوچا تھا؟ صرف بلاگ لکھنا ہے یا۔۔۔ ہممم۔۔۔!!!

پہلی بات تو یہ کہ ہم بلاگنگ کرتے ہوئے کھ سوچتے نہیں۔۔ شروع میں تو ہم صرف یہ سوچتے تھے کہ مشہور ہونے کا طریقہ ہے۔۔۔ جوتے کھا کر نہیں ہوئے تو بلاغڑ بن کر مشہور ہو جائیں گے۔۔۔ اس لیے اپنی ویب سائٹ خریدی۔۔۔ فیس بک کا صفحہ بنایا۔۔۔ جو حلال کا پیسہ بنک سے کمایا تھا، اس کو  فیس بک ہر اپنی تشہیر پر لگا دیا۔۔۔ کہ چلو کچھ تو نیک نامی ہوگی۔۔۔ اس انویسٹمنٹ کا فائدہ یہ ہوا کہ آج میری ویب سائٹ پر 20 لاکھ ہٹس ہیں اور فیس بک پر تقریبا چار لاکھ لائیک ہیں۔۔۔ اور میری یہی شہرت میرے حاسدوں کے دل پر آگ برساتی ہے۔۔۔

 

کن بلاگرز سے متاثر ہیں اور کون سے بلاگز زیادہ دلچسپی سے پڑھتے ہیں؟

متاثر۔۔۔!!! اور میں کسی سے ہوں۔۔۔!!! پاگل ہوگیا ہے کیا۔۔۔؟ ہم متاثر نہیں ہوتے۔۔۔ لوگوں کو "متاثر" بناتے ہیں۔۔۔

 ویسے بھی ہمیں کوئی اچھا نہیں لگتا۔۔۔ کوئی ہے ہی نہیں اس قابل کہ وہ ہمارے پائے کا لکھ سکے۔۔۔ ایسے ہی تو میری ویب سائٹ پر 20 لاکھ ہٹس نہیں ہوئے۔۔۔ دنیا صرف " تو "حضرت مولانا شانِ پاک و ہند جناب قارون مویش مدظلہ علیہ" کو پڑھنا چاہتی ہے۔۔۔ بس ہمیں۔۔۔ اور ہمیں۔۔۔ بس ہم ہی ہم ہیں۔۔۔ اور کوئی نہیں۔۔۔ اگر دنیا میں کوئی نمبر ایک بلاگر ہے تو وہ ہم ہیں۔۔۔ بس ہم۔۔۔ اور کوئی نہیں۔۔۔

 

اپنے بلاگ پر کوئی تحریر لکھنی ہو تو کسی خاص مرحلے سے گزرتے ہیں یا لکھنے بیٹھتے ہیں تو لکھتے ہی چلے جاتے ہیں۔۔۔؟

ابے تحریر اپنے بلاگ پر لکھوں گا نا کہ کسی دوسرے کے بلاگ پر۔۔۔ لکھ لکھ کر ہی تو میرا بلاگ دنیا کا نمبر ایک بلاگ بن گیا ہے۔۔۔ ہاں جب لکھنے بیٹھتا ہوں تو "خاص" موڈ ہونا ضروری ہے۔۔۔ یہ الگ بات ہے کہ میرا "خاص" موڈ چوبیس گھنٹے مجھ پر سوار رہتا ہے۔۔۔ اور "لکھتے ہی چلے جاتے ہیں" سے تیرا کیا مطلب ہے بھائی۔۔۔ میں اپنے گھر بیٹھ کر لکھتا ہوں۔۔۔ کسی کے باپ کے گھر پر نہیں۔۔۔ لکھ کر ادھر ہی بیٹھا رہتا ہوں۔۔ ۔کہیں اور نہیں جاتا۔۔۔ عجیب چریا بندہ ہے بے تو۔۔۔

 

آپ کی نظر میں معیاری بلاگ کیسا ہوتا ہے۔۔۔؟

معیاری بلاگ۔۔۔ صرف قارون مویش کا ہے۔۔۔ اور کسی کے باپ میں ہمت نہیں کہ وہ معیاری بلاگنگ کر سکے۔۔۔ اگر معیاری بلاگ نا ہوتا ہمارا تو 20 لاکھ ہٹس ایسے ہی ہو جاتے۔۔۔ فیس بک پر چارلاکھ لائیک کیسے ہو جاتے۔۔۔

 

 

اردو کے ساتھ اپنا تعلق بیان کریں۔۔۔؟

سچ پوچھ تو بھائی اردو کے ساتھ ہمارا تعلق نہایت عمدہ ہے۔۔۔ کبھی تو نے میرا بلاگ پڑھا بھی ہے۔۔۔ ہم نے ایسی ایسی گالیاں ایجاد کی ہیں کہ تیرے کانوں سے دھواں نکلنا نا شروع ہو جائے۔۔۔ ایسے ایسے کلمات۔۔۔ کہ واہ۔۔۔ لوگ پڑھ کر بھاگ جائیں۔۔۔ کیا یہ احسان کم ہے ہمارا اردو زبان پر کہ ہم نے لغت میں وہ الفاظ شامل کرنے میں کردار ادا کیا۔۔ جو لوگ خلوتوں میں بھی بولتے ڈرتے ہوں۔۔۔

بلاگنگ کے علاوہ آپ کی کیا مصروفیات ہیں۔۔۔؟

فیس بک میرا نشہ بن چکا ہے۔۔۔ میرا فیورٹ پاس ٹائم، مختلف ای میل ایڈریسز بنانا، پھر ان کی مدد سے فیس بک اکاونٹ بنانا ہے۔۔۔ آپ یقین نہیں کریں گے کہ آپ کے اس درویش صفت بلاگر بھائی نے اب تک اڑھائی لاکھ فیس بک اکاونٹ بنائے ہیں۔۔۔

 

اب کچھ سوال ہٹ کر:

پسندیدہ کتاب:

استاد امام دین کی بانگ دہل۔

مسلمان کو کافر کرنے کے سو طریقے

 

شعر:

گلی میں باقی لڑکیاں کچھ اور بھی ہیں۔

ابھی عشق کے امتحان کچھ اور بھی ہیں۔

 

رنگ:

میری شکل اور دل کی طرح۔۔۔ کالا۔۔۔

 

جانور:

کھوتا

 

مصنف

امام دین

 

ملک:

رشیا

 

گیت:

میں زندگی میں چھترول کھاتا چلا گیا

ہر درد کو آہ میں دباتا چلا گیا

 

فلم:

غدار۔۔۔ ہم مویش بن چلے صنم

 

اپنا قیمتی وقت نکال کر کنجر نامہ سے بکواس کرنے کا بہت شکریہ۔۔۔ درفٹے منہ آپ کا۔۔۔

 

 

 

6

نمونہء مغلظات

سگ دہر، طوائف الدنیا
 نام نہاد اردوبلاگران
 وارثین وارث سیالکوٹیوں کی کارستانی ملاحظہ کیجئے۔
 بندہ ناچیز مجاہد ختم نبوت،
 چیمپئن ردِ قادیانیت
 کی ہجو میں یہ سارے نطفہ ناتحقیق غلاظت کا ڈھیر لکھے جارہے
 لیکن یہ سرِ درویش ہے جو کٹ جائے تو کٹ جائے جھک نہیں سکتا

7

سیاہ سی غزل

غزل 

محبت دل میں ہوتی  ہے درد گردے میں ہوتا ہے
حسن  ظن چھپا ہوا ایک پردے میں  ہوتا ہے
پردہ جب فیس بک سے اٹھتا ہے
گردہ جب تین لاکھ میں بکتا ہے
کنٹینر باون لاکھ  میں آتا ہے
بلٹ پروف گاڑی آٹھاون لاکھ میں آتی ہے
کھوتا کھو میں گیا
قادری  آج پھر گھوم گیا
خان نے تو صرف ڈونکی کو کنویں میں دھکا دینا ہے
کچھ بی بیا ں بھی کنٹنروں کے نیچے سے گزرتی دیکھیں میں نے
اندر قادری اور خان شاید منگ پتا کھیل رہے تھے
مویش کی گنجائش نہ نکلی
لوگوں کو اپنی اپنی پڑی تھی

5

تعارف یعنی کہ گند ڈالنا

آپ ہی بتاؤ کہ میرے جتنا مشہور آدمی اور بہت شاہی بلاگر اپنا تعارف کرواتا ہے بھلا۔ بھلا سے یاد آیا کہ اللہ بھلا کرے میری اس سارا غزل والی آئیڈی  کا جس کی وجہ سے اپنے ادھر اتنے لائیک ہوجاتے ہیں ورنہ ہم اتنے بھی لائق نہ تھے۔

آپ کو حیرت ہورہی ہے کہ میں نے ابھی تک گالیاں شروع کیوں نہیں کیں، نہ ہی کوئی ٹھرکی بات کی ہے۔ اور پھر میں نے پکڑ لی ہے آپ کے دل کی بات، میں نے ابھی تک کوئی سیکسی بات بھی نہیں کی، جسکی وجہ سے آپ کا ادھر آنا  بے فائدہ ہوا۔

میں نے یہ بلاگ بنایا ہے صرف رونق شونق لگانے کو، قسمیں کسی کی دل آزاری کرنے سے بہتر ہے بندہ اگلے کو آزار بندی کا کہہ دے۔ مویش کے بارے میں تو خیر آپ سب جانتے ہیں، میں آج کل بہت مشہور ہورہا ہوں فیس بک پر بھی، میرے کوئی پنج ست اکاؤنٹ ہیں۔


اور اب میں نے ایک کام اور شروع کردیا ہےکہ روز ایک نیا اکاؤنٹ بنالیتا ہوں اور اس سے اپنے جاننے والوں کو گالیاں بھی دیتا ہوں اور انکی ماں بہن ایک کرتا ہوں  بس پھر کہہ دینا  ہولے سے کہ یہ تو میرے رقیبان کا کام ہے جی ، ورنہ قسم سے ، میں مولوی کینڈوی طاہر القادری کی سچائی کو کل سے ثابت ہورہی ایک بار پھر قسم کھاکر کہتا ہوں کہ یہ انہی لوگوں کو کام ہے جو مجھ سے سڑتے ہیں۔

بس جی جلنے والے کا منہ کالا، میں نے اپنی فوٹو لگا دی ہے کہ مجھے ڈر نہیں لگتا، آپ کو میری شکل مارنے والے داند کی طرح لگ رہی ہے۔ مجھے سب پتا ہے۔ مگر یہ میری شکل نہیں ہے میرے اندر کا حال ہے، جو بے حال ہے اور میرا دل کرتا ہے کہ میں ہر اس بلاگر کو اور غیر بلاگر کو ٹکریں ماروں جو مجھے سے اختلاف کرے، اختلاف تو دور کی بات ہے جو میری تعریف نہ کرے، کیسے کیسے نحش لوگ ہیں اس دنیا میں۔

میرا خیال ہے اب بس کردوں ویسے مویش کے بارے میں آپ کے کمنٹس کا بہت انتظار رہے گا، یہ ہے تو بہت عادت مگر دیکھتے ہیں کس کو اس بارے علم ہے فل عالم کون ہے، ویسے میں ادھر افغانستان میں بھی قید رہا ہوں اور آپ کو پتا ہے کہ پٹھان بڑے خراب ہوتے ہیں، نسوار ڈال کر بندے کو مویش بنا ہی دیتے ہیں۔

مجھے امید ہے کہ پٹھان سارے کمنٹس کریں گے ادھر، میں کہتا ہوں ادھر ہی رک جا اور کمنٹ کرکے جا چاہے دو گالیاں ہی نکال پر کچھ تو ڈال کمنٹ میں۔

مذید کھوچل بننے کی ضرورت نہیں ہے۔